اس دن میرے بیٹے کی سالگرہ تھی ، میں کام سے جلدی گھر آ گیا ، گھر داخل ہوتے ہی صحن میں چار پائی پر بیٹھی بوڑھی ماں پر نظر پڑی مگر مجھ کو لگا کہ شاید ماں کی نظریں پہلے سے ہی دروازے پر جمی ہوئی تھیں..مگر میں نظر چراتے ہوۓ سر جھکاتے ہوۓ السلام کر کے اپنے کمرے کی طرف چل دیا ،
اور ماں کا ہاتھ اُٹھا ہُوا ہوا ہی میں معلق ریہہ گیا ، میں اپنے کمرے میں صوفے پر بیٹھ کر سوچنے لگا کہ شاید...
ماں نے کچھ کہنا تھا....
میری بیوی جو کے پہلے ہی کمرے میں موجود تھی مجھ کو یُوں دیکھ کر بولی کیا ہُوا ، کس سوچ میں ہیں ، آج تو بیٹے کی سالگرہ ہے خوش ہو جائیں... سارا انتظام میں نے کردیا ہے ،میں نے ہڑبڑا کے کہاں ہاں ہاں بالکل...
مگر میری نظروں کو وہی ہاتھ معلق دکھائی دے رہا تھا...
بیوی کی محبت بچوں کی رونق زمانے کی الجھنوں نے مجھ کو شاید ماں سے کچھ دور کردیا تھا....
اسی سوچ میں تھا کہ ماں میرے کمرے کا دروازہ کھولتے ہوۓ بولی ، راشد ، پُتر میں آ جاں....
ماں کا یہ جملہ سنتے ہی میں کانپ گیا...
بیوی بولی کیا ہُوا کیا ہُوا... ؟
میں کانپتے ہوۓ بولنے کی کوشش کرنے لگا ....اتنے میں ماں اندر آ کے بولی...
پُتر اَج بڑی جلدی آ گیا ایں اللہ خیر کرے ماں صدقے...
میں بولا میں ویسے ہی جلدی آ گیا...
ماں بولی پُتر تیرے نال اک گل کرنی ایں.... یک دم میری بیوی بولی ماں جی تُسی جاؤ سانوں پہلے ای بڑے کم نیں ماں بولی پُتر اَج کوئی خاص دن اے...
میں نے اپنی بیوی کی طرف دیکھا اور نظروں ہی نظروں میں پوچھا کہ ....کیا ماں کو نہیں بتایا....
اتنے میں ماں باہر چلی گئی.... میں تھوڑی دیر سر جھکاۓ بیٹھا رہا اور پھر اُٹھا اتنے میں بیوی بولی کوئی ضرورت نہیں باہر جانے کی ، میں نے اُس کا بازو پکڑ کر زور کا جھٹکا دیا اور باہر چلا گیا..
صحن میں چار پائی پر بیٹھی ماں کے پاس بیٹھ گیا ماں اُٹھی ۔..میں نے کہا ماں مجھے معاف کردیں ، میں نے ساری تفصیل ماں پر واضح کردی.... اور پوچھا آپ میرے کمرے میں خیر سے آۓ تھیں... ماں تھی نا... ایک دم سے معاف کرتے ہوۓ سر پر ہاتھ پھیرتے ہوۓ بولی... پُتر تیرے باپ دے مرن تُوں بعد میں کلی ریہہ گئی آں تے جدوں تک تینوں مل کے پیار نہ کر لاں سکون نئی ملدا.... تھوڑا ویلا کڈ کے میرے کول وی بے جایا کر...
میں ماں کا ہاتھ پکڑ کر چومتے ہوۓ دھاڑیں مار کے رونے لگا... اور بار بار معافی مانگتا رہا... یہ سب میری بیوی ہمارے بچے کو اُٹھاۓ دیکھتی رہی جس کی آج پہلی سالگرہ تھی....
اور ماں میرے سر پہ ہاتھ پھیرتے ہوۓ دھیمی سی آواز میں کہتی رہی ، بس پُتر میں تے ایہی گل کرنی سی بس میں تے ایھو گل کرنی سی...
کدی مینوں وی پُچھ لیا کر...
کدی میرے کول وی بیہ جایا کر...