شاعری محبت اردو | پاک محبت شاعری | محبت شاعری اسٹیٹس | اردو اسٹیٹس

شاعری محبت اردو | پاک محبت شاعری | محبت شاعری

شاعری محبت اردو | پاک محبت شاعری | محبت شاعری

پاک محبت شاعری اور محبت شاعری اردو میں پڑھیں, محبت کیا ہے؟ محبت ایسا پودا ہے جو تب بھی سبز رہتا ہے کہ جب موسم نہیں ہوتا, محبت ایسا دریا ہے کہ بارش روٹھ بھی جائے تو پانی کم نہیں ہوتا

پاک محبت شاعری

چاہیں ہیں یہ ہم بھی کہ رہے پاک محبت 
پر جس میں یہ دوری ہو وہ کیا خاک محبت 
آ عشق اگر قصد تجارت ہے کہ اس جا 
ہیں تودہ ہر اک گھر دو سہ افلاک محبت
 
ناصح تو عبث سی کے نہ رسوا ہو کہ ظالم 
رکھتا ہے گریباں سے مرے چاک محبت 
اپنے تو لئے زہر کی تاثیر تھی اس میں 
گو واسطے عالم کے ہو تریاک محبت 

بلبل تو ہوں قائمؔ میں پر اس باغ کا جس میں 
بے رتبہ ہے مثل خس و خاشاک محبت 

 محبت شاعری اردو میں 


آنکھوں کے کٹوروں میں سمندر لئے پھرنا

اچھا نہیں اے دوست یوں ساغر لئے پھرنا

*****

کتابِ زیست کے عنوان بدل گئے لیکن

نصابِ جاں سے کبھی تیرے تذکرے نہ گئے

*****

اب تک ہے کوئی بات مجھے یاد حرف حرف

اب تک میں چن رہا ہوں کسی گفتگو کے پھول

*****

کس کس کو بتائیں گے جدائی کا سبب ہم

تُو مجھ سے خفا ہے تَو زمانے کے لئے آ

*****

شام سے آنکھ میں نمی سی ہے
آج پھر آپ کی کمی سی ہے

دفن کردو ہمیں کہ سانس ملے
نبض کچھ دیر سے تھمی سی ہے

برف پلکوں پہ کیوں جمی سی ہے
وقت رہتا نہیں کہیں ٹک کر
اس کی عادت بھی آدمی سی ہے
کوئی رشتہ نہیں رہا پھر بھی
ایک تسلیم لازمی سی ہے
آئیے راستے الگ کر لیں
یہ ضرورت بھی باہمی سی ہے

*****

شبِ فراق ہے یا تیری جلوہ آرائی
تو کس خیال میں ہے منزلوں کے شیدائی
اُنھیں بھی دیکھ جِنھیں راستے میں نیند آئی

پُکار اے جرسِ کاروانِ صبحِ طرب
بھٹک رہے ہیں اندھیروں میں تیرے سودائی

ٹھہر گئے ہیں سرِ راہ خاک اُڑانے کو
مسافروں کو نہ چھیڑ اے ہوائے صحرائی
رہِ حیات میں کچھ مرحلے تو دیکھ لئے
یہ اور بات تری آرزو نہ راس آئی

یہ سانحہ بھی محبّت میں بارہا گزرا
کہ اس نے حال بھی پوچھا تو آنکھ بھر آئی
دلِ فسردہ میں پھر دھڑکنوں کا شور اُٹھا
یہ بیٹھے بیٹھے مجھے کن دنوں کی یاد آئی

تمام رات ترے پہلوؤں سے آنچ آئی
جہاں بھی تھا کوئی فتنہ تڑپ کے جاگ اُٹھا
تمام ہوش تھی مستی میں تیری انگڑائی

کھُلی جو آنکھ تو کچھ اور ہی سماں دیکھا
وہ لوگ تھے، نہ وہ جلسے، نہ شہرِ رعنائی
وہ تابِ درد وہ سودائے انتظار کہاں
اُنہی کے ساتھ گئی طاقتِ شکیبائی

پھر اس کی یاد میں دل بے قرار ہے ناصر
بچھڑ کے جس سے ہوئی شہر شہر رسوائی

*****

خودداریوں کے خون کو ارزاں نہ کر سکے
ہم اپنے جوہروں کو نمایاں نہ کر سکے
ہو کر خرابِ مے ترے غم تو بھلا دیئے
لیکن غمِ حیات کا درماں نہ کر سکے

ٹوٹا طلسمِ عہد محبّت کچھ اس طرح
پھر آرزو کی شمع فروزاں نہ کر سکے
ہر شے قریب آکے کشش اپنی کھو گئی
وہ بھی علاجِ شوق گریزاں نہ کرسکے

کس درجہ دل شکن تھے محبت کے حادثے
ہم زندگی میں پھر کوئی ارماں نہ کرسکے
مایوسیوں نے چھین لیے دل کے ولولے
وہ بھی نشاطِ روح کا ساماں نہ کر سکے
 

Post a Comment

Dear Visitor, how did you like this post? If you like this post, please share it with your friends and Express your valuable opinion. Don't write spam comment here. Thanks

Previous Post Next Post

Popular Posts